اس کو اردو میں سہانجنہ یا سونجنہ ، بنگالی میں مورونگا ، پنجابی میں سونجنہ ، سنسکرت میں سوبھانجنہ اور انگریزی میں مورنگا اور ہارس ریڈش ٹری کہتے ہیں ۔اسے drumstick بھی کہا جاتا ہے۔یہ Moringaceae خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کا نباتی نام Moringa olefera کہتے ہیں۔ اس کا ایک مترادف نباتی نام Moringa pterygosperma ہے۔
یہ برصغیر کا مقامی پودا ہے ، بلکہ پروفیسرشہزاد بسرا کی تحقیق کے مطابق اس کا اصل وطن جنوبی پنجاب ہے یہیں سے یہ پورے برصغیر اور بعد میں دنیا کے دیگر علاقوں میں پہنچا ۔یہ درخت پاک وہند ، بنگلہ دیش میں ہمالیہ سے ملحق علاقوں میں ،برما ،سری لنکا اور مشرق بعید کے ممالک میں عام پایا جاتا ہے ۔ افریقہ کے کچھ ممالک میں بھی ملتا ہے۔پاکستان میں پنجاب اور سندھ میں اس کے پودے عام طور پر پائے جاتے ہیں لیکن جنوبی پنجاب میں اس کے درخت باقی علاقوں کی نسبت بکثرت پائے جاتے ہیں ۔یہ گرم اور معتدل علاقوں میں خوب پرورش پاتا ہےیعنی ایسے علاقےجہاں کا درجہ حرارت 18سے 48 ڈگری سنٹی گریڈ کے درمیان ہو اوربارش کا تناسب 250سے 1500 ملی میٹر سالانہ تک ہو ۔یہ خشک اور آبی زمینوں پر بہت تیزی سے اگنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور5.4سے 9 تک کی اساسی سے تیزابی( پی-ایچ)برداشت کر جاتا ہے۔اس کی کاشت بیج اور تنے دونوں سے کی جا سکتی ہے۔
:مورنگاکی چند دوسری اقسام
دنیا میں اس کی درج ذیل 13 اقسام ہیں
•(Bottle Trees) بوتل جیسےتنے والے درخت
Moringa stenopetalaمورنگا سٹینوپیٹالا ( کینیا اور ایتھوپیا کا مقامی پودا)<=
Moringa drouhardiiمورنگا ڈرارڈی (جنوب مغربی مڈاگیسکر کا مقامی پودا) <=
Moringa hildebrandtiiمورنگاہلڈی برانڈٹی (جنوب مغربی مڈاگیسکر کا مقامی پودا) <=
Moringa ovalifoliaمورنگا اوویلی فولیا (نمیبیا اور انگولا کا مقامی پودا) <=
• (Slender Trees)پتلے تنے والےدرخت
Moringa oleiferaمورنگا اولیفیرا (پاکستان(جنوبی پنجاب) اورشمال مغربی بھارت کا مقامی پودا) <=
Moringa concanensisمورنگا کونکینن سس (شمالی بھارت کا مقامی پودا) <=
Moringa peregrinaمورنگا پیریگرینا (قرن افریقہ کا مقامی پودا) <=
• (Sarcorhizal Trees)سارکورائزل درخت
Moringa arboreaمورنگا آربوریا (کینیا کا مقامی پودا) <=
Moringa ruspolianaمورنگا رسپولیانا (ایتھوپیا کا مقامی پودا) <=
•(Tuberous Shrubs) بصلےدار جڑ (موٹی جڑ) والی جھاڑیاں
Moringa borzianaمورنگا بورزیانا (صومالیہ کا مقامی پودا) <=
Moringa longitubaمورنگا لونگیٹیوبا ( ایتھوپیا کا مقامی پودا) <=
Moringa pygmaeaمورنگا پیگمیا ( صومالیہ کا مقامی پودا) <=
مورنگا ریوائی (کینیا اور صومالیہ کا مقامی پودا) Moringa rivae
ڈاکٹر شہزاد بسرا کے مطابق ان 13 میں سے 2 اقسام پاکستان میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم یہی Moringa oleifera ہے ۔ دوسری قسم سندھ کے دوردراز حصوں میں پائی جاتی ہے۔
مورنگا اولیفرا ، مورنکا سٹینوپیٹالا اور مورنگا پیرگرینا یہ تینوں انواع خوردنی طور پر استعمال ہوتی ہیں جبکہ دیگر انواع مقامی طور پر طبی استعمال میں آتی ہیں۔ان میں مورنگا سٹینوپیٹالا کے پودے شمال مغربی کینیا میں ترکانہ جھیل کے اردگرد اور جنوب مشرقی ایتھوپیا میں کاشت کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نوع کے درخت نسبتاکم مقدار میں شمالی ایتھوپیا میں کونسو لوگوں کے علاقے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مورنگا سٹینوپیٹالا کا بڑا تنا چونکہ پانی کی خاصی مقدار اپنے اندر رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے خشک موسم میں بھی یہ سرسبز رہتا ہے اور اس کے پتے خشک موسم میں کونسو لوگوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ کچھ تجزیات کے مطابق اس میں مورنگا اولیفراکی نسبت زیادہ پروٹین پائی جاتی ہے۔لیکن یہ نوع غذائی ضروریات کے لئے مورنگا اولیفرا کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتی۔
مورنگا پیرگرینا ، مورنگا اولیفرا اور مورنکا کونکینن سس کا قریبی رشتہ دار ہے ۔اس کا تنا پتلا اور نازک یا جھاڑی نما ہوتا ہے ۔اس کے بیج بھی سخت چھلکے والے ہوتے ہیں اور ان بیجوں کا اکھٹا کرنا بھی دشوار ہوتا ہے ۔ان کا استعمال پیٹ کے امراض میں ہوتا ہے ۔
مورنگا کوکینن سس ، مورنگا اولیفرا سے بہت مشابہت رکھتا ہے اسی وجہ سے اسے اکثر مونگا اولیفرا سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ مشرقی اور جنوبی (جنوبی پنجاب) پاکستان کے گرم خشک نشیبی علاقوں اور بھارت میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔ بنگلہ دیش کے کچھ علاقوں میں بھی یہ موجود ہے۔اس کی چھال مورنکا اولیفرا کی نسبت زیادہ موٹی ہوتی ہے اس کے پتوں کی ترتیب تین کی بجائے دو پتوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اس کے پتے پھول بعض اوقات کھائے جاتے ہیں ۔ عام طور پر اسے کولیسٹرول کو کم کرنے ، ذیابیطس، پیراسائٹ انفیکشن میں دوسری انواع کے مقابلے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔
ان تمام انواع میں مورنگا اولیفرا سب سے بہتر ہے اور تمام انواع میں فوقیت رکھتا ہے ۔مثلا مورنگا اولیفرامیں دافع سرطان خصوصیات پائی جاتی ہیں جبکہ مورنگا سٹینوپیٹالا میں ایسی کوئی خصوصیت نہیں پائی جاتی ۔ اس کے علاوہ اس شرح نمو بھی مورنگا اولیفرا سے کم ہے ۔اس کے بیجوں کی پیداوار بھی نسبتا کم ہوتی ہے نیز اس کے بیجوں سے کمتر معیار کا تیل کا حاصل ہوتا ہے جو اس کے موٹے اور اسفنجی چھلکے کی وجہ سے مشکل سے نکلتا ہے ۔ان میں پانی صاف کرنے کی خصوصیت بھی کم پائی جاتی ہے۔مورنگا سٹینوپیٹالا کے پتے لیسدار ہوتے ہیں جن کا کھانا مشکل ہوتا ہے اس کے برعکس مورنگا اولیفرا کے پتے نرم ہوتے ہیں جن کا کھانا آسان ہے ۔ اس لئے مورنگا اولیفرا اپنی دافع تکسید خصوصیات ، تیز نمو، زیادہ مزیدار پتے ، اچھے معیار کا زیادہ مقدار میں تیل کا حصول کے لحاظ سے بہترین انتخاب ہےمورنگا کی باقی اقسام مقامی طور پر اپنے علاقوں میں طبی طورپر استعمال ہوتی ہیں۔اس طرح ان 13 انواع میں سے Moringa oleiferaہی وہ پوداہے جو اپنی غذائی اہمیت کے لحاظ سے خصوصا اور طبی خصوصیات کے اعتبار عموما، ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے ۔اسی لئےیہ دنیا میں کرشماتی پودے کے نام سے مشہور ہوا ہے۔مورنگا کی باقی اقسام میں یہ خصوصیات نہیں پائی جاتیں جو مورنگا اولیفرا میں ہیں ۔چنانچہ سہانجنہ کے نام سے جس پودے یا درخت ذکر کیا جارہا ہے وہ مورنگا اولیفرا ہے ۔
پوری دنیا میں سوہانجنا کو ایک کرشماتی پودے کے طور پر جانا جاتا ہے جس کے پتوں، شاخوں اور جڑوں کے ساتھ ساتھ بیجوں میں بھی اہم غذائی اجزاء شامل ہیں۔اسی وجہ سے یہ درخت غذائی قلت کا بہترین حل ہے۔یہ پودا اس وقت شہرت کی بلندیوں پر پہنچا اور کرشماتی پودے کے نام سے مشہور ہوا جب افریقہ (سینیگال) میں قحط کے دوران اسے غذائی کمی کوپورا کرنے والے درخت کے طور پر متعارف کرایا گیا ۔اس درخت کے پتے نہ صرف انسانوں اور جانوروں دونوں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا بلکہ اسے کے بیجوں سے پانی صاف کرکے پینے کے قابل بنایا گیا اس سے وہاں کے لوگ بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہوگئے جو ناصاف پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہيں ۔بہت سی بیماریوں میں اس کے بیج اور تیل روایتی طور پرعلاج کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس کے نئےکرشماتی خواص کومتعارف کرانے کا سہرا زرعی یونیورسٹی میں شعبہ کراپ فزیالوجی کے پروفیسر شہزاد بسرا کے سر ہے جنہوں نے اس روایتی درخت نہ صرف نئے سرے متعارف کرایا بلکہ اس کی شجر کاری اور کاشت کی ترغیب دے کر اس ملک کے کونے کونے میں پھیلانے کا کا م نیک کام بھی ایک این جی او “مورنگ فارلائف” کے ذریعے بڑی تندہی سےکررہے ہیں ۔ کلر والی زمین پر بھی اس کی کاشت کی جا رہی ہے۔جہاں دوسری فصلیں نہیں اگ سکتیں۔
:-پروفیسر شہزاد بسرا کے اپنے الفاظ کے مطابق
اللہ کے پیارے نبی ﷺ کی ایک حدیث شریف ہے:
“اگر تمہارے ہاتھ میں بیج ہے اور اس کو بونے لگے تھے کہ خبر ملی کہ قیامت آنے کو ہے اور ہر چیز فنا ہوجائے گی تو بھی اس بیج کو بو دو”(مسند احمد:13240)
“جو مومن بھی درخت لگائے گا جب تک انسان ، پرندے ، جانور اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اس کے حق میں صدقہ جاریہ ہو گا” (بخاری:6012)
کیا جادو اثر تھا ان الفاظ میں کہ فیصلہ کرتے پھر دیر نہ لگی اور ضمیر نے مخاطب کیا۔
“اٹھو! نکلو آفس سے اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی حدیث کو زندہ کر دو۔ لگاؤ اپنے ہاتھوں سے مورنگا، عام کر دو یہ کرشماتی پودا اپنے دیس میں۔مت انتظار کرواس وقت کا جب غذائی قلت ہو جائے اور کوئی انگریز، جاپانی، امریکی خیرات کے ساتھ پروفیسر بھیجے جو تیرے ہی وطن کے پودے کا تیرے ہم وطنوں کو تعارف کروائے۔ اس سے پہلے کہ کوئی عیسائی چرچ فوگلی (ایک امریکی زراعت پروفیسر )کو بھیجے ۔اٹھو، ہمت کرو اس قوم نے تم پر لاکھوں روپے خرچ کر کے، ساری دنیا گھوما کے پروفیسر بنایا ہے، اس کا حق ادا کرو۔ اگر لوگ تمہارا مزاح پڑھ لیتے ہیں، لطیفے سن لیتے ہیں توپیارے نبی ﷺ کی بات کیوں نہ سنیں گے۔”
پھرطلباء سے، ساتھی اساتذہ سے، گھر میں، کلاسوں میں، کانفرنسوں میں، ای میل، فیس بک، جب، جیسے اور جہاں ممکن ہوا مورنگا جسے ہم ”سہانجنا” کہتے ہیں، کا تعارف شروع کر دیا۔ ہر کسی نے حیرت سے سُنا اور پھرحدیث پاک کوسُن کے سنت کو زندہ کرنے میرے ساتھی بنتے چلے گئے۔ چند ہی ہفتوں میں Facebook پر ایک بڑی تعداد میں رضا کار مل گئے۔طالب علموں نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور Moringa For Life نامی تنظیم معرضِ وجود میں آ گئی۔ پاکستان بھر کی زرعی یونیورسٹیوں ، ریسرچ اداروں میں سہانجناکا چرچا شروع ہوگیا۔ میرے علاوہ بیشمار سائنسدانوں نے اِس پر کام شروع کر دیا۔
کانفرنسوں،یونیورسٹیوں، اداروں، کالجوں اور سکولوں میں مجھے سہانجناکے تعارف کے لیے بلایا جانے لگا اور تنظیم کے رضاکاروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ چند ہفتوں میں ملک بھر سے اتنا بیج اکٹھا ہو گیا کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ تنظیم کے کارکنان نے ہزاروں کی تعداد میں پنیری تیار کر دی اورپورے ملک میں اِس کی سپلائی جاری کر دی۔ روزانہ بے شمار طالب علم، زرعی سائنسدان، زمیندار اور عام لوگ مجھ سے رابطہ کررہے ہیں اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کررہے ہیں۔میری توقعات سے کہیں بڑھ کر طلبہ و طلبات اور ہر طبقہ فکر کے لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں اور سُہانجنا کے بارے آگاہی ہو رہی ہے۔جو کام فوگلی نے لاکھوں ڈالروں میں 1997-2004میں سینیگال میں کیا، میرے سوہنے نبیﷺ کے متوالوں نے ایک روپیہ کسی سے مانگے بغیر رضاکارانہ طور پرصرف تین مہینوں میں اُس سے بڑھ کر کر دیا۔ انشاء اللہ چند برسوں میں سہانجنا پاکستان کے ہر گھر میں موجود ہوگا اور ہر پاکستانی اس کے فوائد سے بھر پور مستفید ہو رہا ہو گا ۔
سہانجنہ کے درخت کو اگر بڑھنے دیا جائے 10 سے 12 میٹر(32 سے 40 فٹ 20فٹ)تک بلند اور1.5 فٹ تک موٹاہو سکتا ہے۔اس کا تنا 4 سے 5 فٹ تک سیدھا جاتا ہے ،پھر اس کی شاخیں نکلتی ہیں ۔اس کی ہر شاخ پر کئی چھوٹی شاخیں لگی ہوتی ہیں ۔تنے کی چھال ملائم اور بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کے پتے عموما 25 سے 50 ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں اس کے پھول سفید رنگ کے ، خوشبوداراور 1.5 سے 2 ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں ۔ اس کی پھلیاں 15 سے 30 ملی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔اس کے بیج سہ گوشہ ہوتے ہیں۔ سوہانجنہ کی لکڑی بہت نرم و نازک اور جلد ٹوٹنے والی ہوتی ہے ۔ماہ فروری میں اس درخت پر گچھوں کی شکل میں سفید رنگ کے پھول بکثرت لگتے ہیں اور مارچ تک یہ درخت پتلی پتلی گول اور لمبی پھلیوں سے لد جاتا ہے۔اس کے بیج بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں اس کی ان کھلی کلیاں ، کچنار کی کی طرح پکا کر بہت شوق سے کھائی جاتی ہیں ۔یہ پھلیاں گوشت میں ڈال کر پکائی بھی جاتی ہیں ۔اس کا پودا جب ایک یا دو سال کا ہوتا ہے تب اس کی جڑ بے ریشہ ، سفید رنگ کی مولی کی طرح مخروطی شکل کی ہوتی ہے۔ ان جڑوں(جنہیں سہانجنہ کی مولی کہا جاتا ہے ) کو نکال کر اچار ڈالا جاتا ہے جوملک کے دیگر علاقوں خصوصا پنجاب بھر میں کافی معروف ہے۔یہ اچار بلغمی امراض میں مفید ہے۔ پیشاب آور ہے اور پتھری کو توڑتا ہے۔سہانجنے کی جڑوں کے علاوہ اس کی پھلیوں کا اچار بھی ڈالا جاتا ہے ۔کچھ علاقوں میں اس کے پھولوں کا اچار بھی ڈالتے ہیں یہ اچارمقوی معدہ ہے ، پیٹ کی ریاح (گیس) کے لئے مفید ہے۔
یہ چونکہ یہاں کا مقامی پودا ہے اس لئے اسے مختلف امراض میں بطور علاج بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ دیسی طریقہ علاج جسے عرف عام میں طب یونانی کہا جاتا ہے ، میں یہ طبی طور پر زیادہ معروف نہیں ، البتہ ایورویدک میں اسے کافی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کا طبی استعمال کافی محدود ہے ۔طب یونانی کی کتب کا مطالعہ کریں تو اسے عام طور پر ریاح معدہ ، پیٹ درد کے لئے استعمال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے استعمال کئے جانے والے نسخوں میں اس کا استعمال صرف اتنا ہے کہ دیگر اجزاء کے سفوف کو سہانجنہ کے پتوں کے رس میں ملا کر گولیاں بنائی جاتی ہیں۔
مثلا ہینگ، سہاگہ بریاں ،سونٹھ ، کالا نمک — چاروں ادویہ کا سفوف ایک ایک تولہ ، سوہانجنہ کے پتوں کا رس (آب برگ سہانجنہ) 5 تولہ میں ملا کر کھرل کریں کہ سفوف گولی بنانے کے قابل ہو جائے تو گولیاں بقدر نخود (چنے کے برابر) بنا لیں ۔ ایک سے دو گولی ہمراہ تازہ پانی دیں ۔ پیٹ درد ، ریاح (گیس) کے لئے مجرب ہے۔
ایورویدک میں اس کا طبی استعمال کافی زیادہ ہے ۔ اس میں اس کے مختلف اجزاء بطور دوا استعمال ہوتے ہیں ۔ اس درخت کی چھال کا سفوف استسقاء، نوبتی بخاروں ،مرگی ، اختناق الرحم(ہسٹریا) ، فالج ، پرانا گنٹھیا، ورم جگر وطحال اور بدہضمی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس درخت کی چھال یا اس کی جڑ کی چھال کا جوشاندہ یا اس کی تازہ جڑ کا رس بھی جگر کی خرابی سے پیدا ہونے والے استسقاء (پیٹ اور پھیپھڑوں میں پانی پڑنا)میں مستعمل ہے۔اس جوشاندہ سے غرارے کرنے سے منہ کے چھالوں ، مسوڑوں کے درد میں آرام آتا ہے۔اس کے بیج بھی استسقاء استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اس کے بیجوں کا تیل نقرس اور گنٹھیا کے علاج میں بطور مالش استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پھول بعض اوقات دودھ میں پکا کربطور مقوی باہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ان پھولوں کا رس دودھ کے ساتھ دافع سنگ مثانہ (مثانہ کی پتھری) اور مقوی معدہ ہے۔دمہ میں بھی ان پھولوں کا استعمال مفید ہے—— اس کی چھال میں سے ریشے بھی نکلتے ہیں جن سے چٹایا ں ، کاغذ ، اور رسے بنتے ہیں۔ اس کے بیجوں کا تیل مشینری کے پرزوں میں بطور لبریکنٹ استعمال ہوتا ہے ۔ گھڑی ساز عموما یہی تیل گھڑیوں کے پرزوں کے رواں رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔(ماخذ پاک و ہند کی جڑی بوٹیاں – حکیم صوفی لچھمن پرشاد)
دنیا کے دیگر علاقوں اور ممالک میں بھی یہ طبی طور پر مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہوتا ہے ۔جدید تحقیقات سے ان روایتی طریق علاج کی نہ صرف تائید ہوئی بلکہ کچھ نئی خصوصیات بھی سامنے آئی ہیں مثلا شیرافزا ہونے کی وجہ دودھ پلانے والی ماؤں میں اس کا استعمال دودھ کی کمی کو پورا کرتا ہے ۔تازہ پتے ابال کر شیرافزا کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں وٹامن سی کا حامل ہونے کی وجہ سے یہ دافع سکروی ہے ۔غدہ درقیہ کی زیادتی کو ختم کرنے اور مانع حمل خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں اس کے پتوں کا چبانا سوزاک میں پیشاب کے بہاؤ کو بڑھانے کے لئے مفید ہے۔اس کے پتوں کا پلٹس (ضماد)غدودوں کی سوجن دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔مانع تکسید ہونے کی وجہ سے عمررسیدگی (بڑھاپا) کے اثرات کو زائل کرتا ہے اور دافع تکسید مرکبات کی موجودگی اسےسرطان میں مفیدبناتی ہے۔یہ کولیسٹرول کوختم کرکے بلڈپریشر کوکم کرتا ہے ۔بلڈپریشرکم ہونے سے اس کی وجہ سے ہونے والے سردرد ، درد شقیقہ میں نافع ہے۔ دافع شوگر خصوصیات کی وجہ یہ ذیابیطس میں مفید ہے۔ اس کے پتے ذرا بھون کرناریل کے تیل میں ملا کر زخموں پر لگائے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں اس کی جڑیں ابال کر سوجن پر بطور پلٹس استعمال کرتے ہیں۔یہ پیشاب آور ، دافع تشنج ، دافع السرخصوصیات کی حامل بھی ہے ۔تازہ جڑ پیشاب آور ہے۔ حیض آور اور مسقط رحم ہے ۔اس کی جڑیں اسقاط حمل میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس لئے حاملہ عورتوں کو اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔یہ ضدحیوی (اینٹی بائیوٹک) دافع پھپھوند، دافع سوزش خصوصیات کی وجہ سے زخموں اور ہر قسم کی سوزشوں میں کو ختم کرتی ہے ۔اس کی جڑوں کا جوشاندہ زخموں اور قروح کو دھونے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔اس کی جڑوں کا جوشاندہ گلے کی دکھن میں استعمال کیا جاتا ہے
نگاراگوا میں اس کی جڑوں کا جوشاندہ استسقاء میں استعمال ہوتا ہے۔مسہل ہونے کی وجہ سے اس کے پتے قبض کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔پھلیاں۔ جوڑوں کے درد میں مفید ہے ۔اس کی جڑوں کا رس دودھ میں ڈال کر پینے سے دمہ، ہچکی ، گنٹھیا اور درد کمر(چک) میں فائدہ ہوتا ہے۔۔ آنتوں کے کیڑوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔دافع تشنج ہونے کی وجہ سےاس کی جڑوں کی چھال کا جوشاندہ کی ٹکور تشنج رفع کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔اس کی گوند بھی مسقط حمل ہے۔گوندتل کے تیل کے ساتھ کانوں کے درد میں استعمال ہوتی ہے۔ جڑوں کا رس بھی کان درد میں استعمال ہوتا ہے۔جاوا میں اس کی گوند آنتوں کے امراض میں استعمال ہوتی ہے۔جمیکا میں اس کی لکڑی نیلا رنگ دینے کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ اس کےبیج گنٹھیا۔ دمہ، بلند فشار خون، ہچکی میں مفید ہیں اور پیشاب آور ہیں
مورنگا کے پتوں کی غذائی خصوصیات(جدید تحقیق)
مورنگا کے چھوٹے پتے بطور سلاد اورپالک اورمیتھی کے ساتھ ملا کر بطور سبزی پکا کر استعمال کیے جاسکتے ہیں-اس کے پتے غذائی قلت کا بہترین حل ہے۔ان کے تازہ پتوں کا سوپ بھی تیار کیا جاتا ہے۔100 گرام پکائے ہوئے پتوں میں 3.1 گرام لحمیات ، 0.6 گرام فائبر، 96 ملی گرام کیلشیم ، 29 ملی گرام فاسفورش ، 1.7 ملی گرام لوہا ، 2820 ملی گرام بیٹا کیروٹین ، 0.07 ملی گرام تھایامین ، 0.14 ملی گرام رائبوفلیون ، 1.1 ملی گرام نیاسین، اور 53 ملی گرام وٹامن سی پایا جاتا ہے۔
اس کے پتوں کا پچاس گرام سفوف دن بھرکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس کے لئے مزید کسی غذا مثلا گوشت یا پھل جیسی قیمتی اشیائے خوراک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور اس طرح ایک غریب آدمی مورنگا کے استعمال سے اپنی غذائی ضروریات سستے داموں بآسانی پورا کر سکتا ہے۔ سوہانجنا کے پتوں کی افادیت دیکھتے ہوئے مختلف ممالک میں انھیں بطور غذا استعمال کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک میں اس سے انرجی ڈرنکس بنائے جا رہے ہیں۔
مورنگا وٹامن اے، بی اور سی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ خاص طور پر آئرن(لوہا)، سلفر(گندھک)،امائنوں ایسڈ ز، میتھینین، سیسٹین،امائنوں ایسڈز کی متوازن مقدار موجود ہے۔اس کے استعمال سے حاملہ عورتوں میں خون کی کمی دور ہوتی ہے ، ان کی عمومی صحت بہتر ہوتی ہے اور وہ صحت مند بچوں جنم دیتی ہیں ۔سہانجنہ کے پتوں کا چھ چائے کا چمچ سفوف،حاملہ عورتوں کی روزانہ کی آئرن اور کیلشیم کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔بچوں کی پیدائش کے بعد بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں اگرسہانجنہ کے پتے اور شگوفے اپنی غذا میں شامل رکھیں تو دودھ کی مقدار اور معیار دونوں میں کا فی بہتری آتی ہے۔دودھ کی کمی نہیں ہونے پاتی اور وہ صحت بخش بھی ہوتا ہے۔اس سے دودھ پینے والے بچوں کی صحت بھی بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔اس مقصدکے لئے حاملہ عورتیں تین بڑے کھانے کے چمچے سانجنہ کے پتوں کا سفوف روزانہ لیں۔ایک چائے کا چمچ سہانجہ کے پتوں کا سفوف روزانہ 14 فیصد لحمیات ، 40 فیصد کیلشیم، 23 فیصد لوہا (آئرن) اور وٹامن “اے” کی کافی مقدارمہیا کرتا ہے جو ایک سے تین سال کے بچے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ عام خواتین اور مرد حضرات بھی اپنے صحت کو بہتر بنانے کے لئے اس کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ چھوٹے بچے کی بڑھوتری کے لئے اس کا استعمال بہت اہم ہے۔اگر بچوں کی خوراک میں اسے شامل کیا جائے تو نہ صرف انھیں مختلف بیماریوں سے تحفظ ملے گا بلکہ بچوں کی نشوونما بھی جلد ہوگی۔
مورنگا کی غذائی افادیت کو بیان کرنے کے لئے عموما یہ انداز اپنایا جاتا ہے کہ اس میں دودھ کے مقابلے میں سترہ گناہ زیادہ کیلشیم موجود ہوتا ہے اسی طرح دہی کے مقابلے میں9 گنا زیادہ پروٹین، گاجر کے مقابلے میں10 گناہ زیادہ وٹامن اے، وٹا من سی مالٹے کے مقابلے میں آدھا ، کیلے کے مقابلے میں پندرہ گناہ زیادہ پوٹاشیم اور پالک کے مقابلے میں25 گنا زیادہ فولاد موجود ہوتا ہے۔یاد رہے کہ یہ تقابل خشک پتوں کا ہے ، تازہ پتوں میں یہ اجزاء کم مقدار میں ہوتے ہیں یعنی خشک پتوں میں ان اجزاء کا تنا سب بڑھ جاتا ہے۔
مورنگا اولیفیرا تجارتی مقاصد کیلئے بھارت، ایتھوپیا، فلپائن اور سوڈان میں وسیع پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند ، ملایا اور فلپائین میں اس کے پھول ، تازہ پتے ، نرم پھلیاں سبزی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ملایا میں اس کے بیج مونگ پھلی کی طرح کھائے بھی جاتے ہیں ۔پاکستان میں بھی پروفیسر شہزاد بسرا اس کی کاشت کے فروغ کے لئے بہت کوششیں کررہے ہیں ۔مو رنگا کے پتے مویشیوں کوبطو ر چارہ استعمال کئے جاسکتے ہیں ان کے روزانہ استعمال سے نہ صرف مویشیوں کی صحت بہتر ہوتی بلکہ ان کا وزن 32 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔اس کے استعمال سے دودھ دینے والے جانوروں کے دودھ میں43سے 65 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس کو بطور چارہ استعمال کرنے سے کھل بنولہ (جوکہ ایک مہنگی چیزہے)کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔چارے کے لئے اس کے درخت سےسال بھر میں 12 سے 16 دفعہ تک کاٹا جا سکتا ہے ۔سیڈ کیک بھی چارے کے لیے بنایا جا سکتا ہے۔
محققین کے مطابق مورنگا اولیفیرا کے بیج جراثیم کش اوردافع تکسید خصوصیات حامل ہیں ۔ماہرین کے مطابق مورنگا اولیفیرا کے بیجوں میں یہ خاصیت پھلیوں سے نکالنے کے ساتھ ہی پیدا ہوجاتی ہے اور اس وجہ اس کے لائیو فلیک عناصر ہیں۔ یہ عناصر خلوی جھلی کے ساتھ جکڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ بیج جراثیم کش اثرات ، کاربکسلک ایسڈ، خلوی دیوار تباہ کرنے والے خامروں اور کائننز کی وجہ سے دافع تکسید عمل کرتے ہیں۔ اس کی پھلیوں میں کثیر مقدار میں لحمیات ، فاسفورس اور ایک معقول مقدار میں کیلشیم اور لوہا بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے تازہ پتے کیلشیم ، آئرن ، فاسفورس اور وٹامن اے ، بی اور سی پایا جاتا ہے۔اس میں امائنوایسڈ ، اومیگا تھری اور ہائی ڈینسٹی لیپوپروٹین پائی جاتی ہے۔
اس کی جڑوں میں فراری روغن پایا جاتا ہے جس کی بوتیکھی اور ناگوار ہوتی ہے ۔بیجوں میں ایک تیکھا اور چبھتا ہوا الکلائیڈ نہایت قلیل مقدار میں پایا جاتا ہے۔ان میں پائے جانے والے تیل میں پالمیٹک ، سٹریرک ، مائرسٹک، اولک اور بیہینک ایسڈزکے ساتھ ساتھ دو الکلائیڈ کا مرکب پایا جاتا ہے جن کا عمل ایپی نفرین جیسا ہوتا ہے ۔
مورنگا کے چھوٹےپتوں میں بہت سے نمو(گروتھ) بڑھانے والے عناصر پائے جاتے ہیں۔چھوٹے پودوں پر اس کے پتوں کے رس(رس برگ سہانجنہ —— مورنگا لیف ایکسٹریکٹ) کا سپرے کرنے سے ان کی نشوونما (بڑ ھوتری)نمایاں طور پرتیز ہوجاتی ہے، پودے صحت مند اور مضبوط ہو جاتے ہیں ان میں کیڑوں کے حملوں اور بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔پودے کے بڑا ہونے پرنہ صرف اس پر لگنے والے پھلوں کی پیداوار میں 20 سے35 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ پھل اور پھول کا ذائقہ اور معیار بھی بڑھتا ہے۔
رس برگ سہانجنہ اس کے تازہ پتوں کو نچوڑ کر تیار کیا جاتا ہے۔ فصلوں پر سپرے کے لئے ایک ایکڑ کے لئے 1.5 کلو گرام رس برگ سہانجنہ یا ایم ۔ایل ۔ای کافی ہوتا ہے ۔اسے 30 سے 35 گنا پانی میں ملا کر فصل کے اہم بڑھو تری کے مرحلوں پر کیا جا تا ہے۔ ایک پودے پر 25 ملی لیٹرسپرے کیا جاتا ہے۔بیجوں کو محفوظ کرنے کے لئے اسے 30 گنا پانی میں حل کرکے ، اس محلول کو پانچ گنا بیجوں میں ملایا جاتا ہے۔
مورنگا کے بیج ، پانی کی صفائی کا قدرتی اور اور محفوظ ذریعہ مورنگا کے بیجوں کا سفوف ایک پیچیدہ مرکب ہے جس میں مختلف امائنوایسڈ ز پائے جاتے ہیں ۔یہ امائنوایسڈز پانی میں موجود دھاتی آئنز کوبائنڈنگ کے ذریعے غیرمؤثر کر کے تہہ نشین کردیتے ہیں ۔ اس سفوف میں فائدہ مند بیکٹیریا ہوتے ہیں جو نقصان دہ جراثیم کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔اس طرح ان کے بیجوں کا سفوف آلودہ پانی صاف کرنے ،زہریلے مواد کو غیرمؤثر کرنے، جراثیم کے خاتمے اور دیگر کثافتوں کو زائل کرنے والی خصوصیات کا حامل ہے۔اس مقصد کے لئے بیج کا چھلکا اتار لیں اور گری کو کونڈی میں اچھی طرح پیس لیں اورکپڑے کی تھیلیوں میں پیک کر لیں ۔تھیلیوں کو پانی کے جگ میں اچھی طرح کم از کم دو منٹ تک ہلائیں ۔تھوڑی دیر بعد ایک مرتبہ پھر پانی کو دس منٹ تک ہلائیں ۔ایسا کرنے سے پانی میں موجود کیٹائنز اکٹھے ہوکر تہہ نشین ہونا شروع ہو جا ئیں گے۔ایک گھنٹہ تک پانی کو پڑا رہنے دیں جب کثافتیں اچھی طرح تہہ میں بیٹھ جائیں تو اوپر کا پانی نتھار کر کسی دوسرے برتن میں انڈیل دیں ۔دس لیٹر پانی کے لئے دو چمچ مورنگا کے بیج کا سفوف کا فی ہے۔زیادہ بہتر یہ کہ بیجوں کو دبا کربذریعہ کولہو تیل حاصل کیا جائے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کھلی یا کیک سے پانی صاف کرنے کے کام لیا جائے۔
مورنگا کے بیج کا پیسٹ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔پیسٹ بنانے کے لئے بیجوں کے سفوف میں کشید کیا ہوا پانی ڈالا جاتا ہے ۔ 2فیصد سسپنشن بنانے کیلیے 2گرام بیج سفوف کو 100 ملی لیٹر پانی میں ڈالیں۔ اس کو آدھا گھنٹہ میگنیٹک سٹرر سے تیزی سے ہلائیں تاکہ جمع شدہ پروٹین سے پانی الگ کیا جا سکے۔پھر واٹ مین نمبر ایک کے فلٹر پیپر سے سارا سسپینشن نتھار لیں۔سسپنشن کو استعمال کرنے سے پہلےاچھی طرح ہلائیں۔
مورنگا تیل
مورنگا بیجوں میں 30 سے 40 فیصد تیل موجود ہوتا ہے۔جسے بیجوں کو دبا کر(بذریعہ کولہو)حاصل کیا جا تا ہے۔مورنگا کا تیل جسے بن آئل (Ben oil)بھی کہا جاتا ہے ، زرد رنگ کا چمکدارصاف شفاف تیل ہے ۔یہ قدرتی طور پر کا فی دیرپا ہوتا ہےجو کم از کم پانچ سال تک خراب نہیں ہوتا ،یعنی اس کی شیلف لائف دیگر تیلوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔یہ نہایت طاقتور دافع تکسید (اینٹی آکسیڈینٹ )ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ جلدتکسید( آکسیڈیشن) سے متاثر نہیں ہوتا۔ دنیا میں موجود دواساز(فارما سوٹیکل)، کاسمیٹک، لبریکینٹس انڈسٹریز، آئل فیکٹریز، باِئیو ڈیزل پلانٹس اور بہت سی دیگر صنعتیں اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔
مورنگا کا تیل جراثیم کش، سوزش ، سوجن وغیرہ کو روکنے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔جسم اور جلد پر لگے چھوٹے موٹے زخم، کیڑوں مکوڑوں کے کاٹنے، جلنے، خارش، دانوں وغیرہ کا علاج ہے۔چہرے کی پھنسیوں ،چھائیوں، اور داغ دھبوں کا مکمل علاج ہے ۔یہ تیل چھوٹے بچوں کے پیٹ میں ہونے والے درد ، گیس وغیرہ کا بھی علاج ہے۔یہ بچوں میں اعصابی صحت اور افزائش کا بھی ذریعہ ہے۔
اس تیل کا ایروما تھراپی (خوشبو سے علاج)، چہرے کی جھریاں ختم کرنے والی،بالوں کی حفاظت اور نشونما کرنے والی کریموں ، صابن اور باڈی واش لیکیوڈ ، عطریات (پرفیوم)میں عام استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت سی بیو ٹیشن کمپنیاں اب اس تیل کو جلد نرم کرنے اور موسمی اثرات سے بچانے والی موائسچرائزنگ کریموں میں استعمال کرنے لگی ہیں۔یہ جسم اور بالوں کی صحت اور نمی برقرار ر کھنے کےلیے استعمال کیا جارہا ہے۔
مورنگا کا تیل بے بو اور ذائقہ میں انتہائی مزیدار ہونے کی وجہ سے اس کی پکانے کی صلاحیت زیتون کے تیل کے مشابہ ہے۔یہ فوڈ انڈسٹری میں پریزرویٹوز (محفوظ کرنے والا)کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
:مورنگا گوند
:دیگر استعمالات
دوسرے پودوں کی نسبت مورنگا سے میعاری اور زیادہ مقدارمیں تیل نکلتا ہے جسے پروسیس کرنے کی قیمت بہت کم ہے۔اس سے اچھی کوالٹی اور گریڈ کا بائیو ڈیزل اور اور گلیسرین کے مرکبات حاصل ہوتے ہیں۔مورنگا کے تیل سے تیار شدہ بائیو ڈیزل(پودوں سے حاصل ڈیزل)، ایک بہترین بائیوڈیزل خصوصیات کا حامل ہے کیونکہ آکسیڈیشن سے محفوظ ہونے کی وجہ سے دوسرے ذرائع سے تیار ہونے دالے بائیوڈیزل سے کئی گنا دیر پا ہوتا ہے۔مورنگا بائیو ڈیزل 70 فیصد سے زیادہ اولیک ایسڈ رکھتا ہے جس میں سیر شدہ فیٹی ایسڈز کی کافی تعداد ہوتی ہے۔میتھائل ایسٹرز (بائیو ڈیزل) جو مورنگا تیل سے حاصل ہوتا ہے اس میں سی ٹین (پٹرولیم میں پایا جانے والا ہائیڈروکاربن) کا نمبر 67 سے زیادہ ہے جو باقی ذرائع سے حاصل ہونے والے بائیوڈیزل سے بہت زیادہ ہے۔
حیاتیاتی کیٹرے مار ادویات (بائیو پیسٹی سائیڈز)
کیمیائی طور پر تیار شدہ کیٹرے مار ادویات کے بے دریغ استعمال سے بہت ساری حیاتیاتی اور ماحولیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ان کے استعمال سے بعض خطرناک اور مہلک قسم کی انسانی اور جانوروں کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ۔اس کے علاوہ ان کیڑوں میں ادویات کے خلاف دن بدن بڑھتی قوت مدافعت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔پودوں سے حاصل کیے جانے والے حیاتیاتی مرکبات اور کشید کردہ آمیزے ماحولیاتی اور حیاتیاتی طور پر بہت ہی محفوظ ہیں۔ انہیں کیڑوں مکوڑوں کو مارنے یا بھگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب دنیا کیمیائی کیٹرے مار ادویات کے خطرناک نتائج سے تنگ آکر حیاتیاتی کیٹرے مار ادویات کو اپنا رہی ہے۔ان کیٹرے مار ادویات میں مورنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مورنگا کا سفوف دانے دار اجناس کے کیڑے کھپرا [ٹروگو ڈرما گرینیریم] کے لاروے اور جوان دونوں کو مار بھگانے کا کام کرتا ہے۔
:مورنگا درخت لگانے کا صحیح طریقہ
قلموں سے افزائش
مورنگا کی شاخیں کم سے کم ایک انچ موٹی اور چھ فٹ لمبی شاخیں کاٹ لیں۔تین فٹ لمبائی اور تین فٹ چوڑائی کا گڑھا کھود لیں۔کٹی ہوئی شاخ کو اس گڑھے میں رکھیں اور زرخیز مٹی، اور گلی سڑی روڑی کے ساتھ پور دیں۔خیال رکھیں کہ شاخ کی بنیاد کو مٹی سے اچھی طرح دبا دیا گیا ہے اور شاخ سے نیچے سے اوپر ایک گنبد نما سی شکل بنا دی گئی ہے۔پانی دیتے وقت خیال رکھیں کی نئے نکلنے والے تنے کو پانی نہ چھوئے اور نہ ہی ہی شاخ ڈوبنے پائے
بیج سے افزائش
ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ گہرا گڑھا کھو دیں اور اس گڑھے کو دوبارہ ہلکی اور نرم مٹی سے پور دیں۔سبز گوبر کی کھاد اور گلی سڑی روڑی پودے کو پھلنے پھولنے میں بہتر مدد دے گی اور مورنگا کا پودا ہلکی سے ہلکی زمین میں بھی اگ آئے گا۔ہر گڑھے میں تین سے پانچ بیج لگائے جائیں جو کم از کم ڈیڑھ سے دو انچ کی گہرائی پر ہوں۔مٹی کو کچھ گیلا رکھیں مگر اتنا نہ ہو کہ بیج ڈوب کر گل سڑ جا ئیں۔جب نئے ننھے پودے چا ر سے چھ انچ کے ہو جائیں تو صرف صحت مند پودے رہنے دیں اور باقی تلف کر دیں۔نئے پودوں کو “زرد چیونٹیاں” (ٹرمائٹس) سے اور زمینی کیڑوں مکوڑوں (نیما ٹوڈز) سے بچاِئیں یہ دونوں ان کے لیے خطرناک ہیں۔
پلاسٹک کے تھیلوں میں
تھیلوں کو ہلکی قسم کی مٹی (تین حصے مٹی ، ایک حصہ ریت) سے بھر لیں۔ہر بیگ میں دو سے تین بیج، 4/1 انچ گہرائی میں بو دیں۔تھیلوں کو گیلا رکھیں مگر بہت زیادہ نہیں ورنہ بیج مر جائیں گے۔دو ہفتوں میں بیج اگ آئیں گے۔ہر تھیلے میں ایک صحت مند بیج رہنے دیں باقی تلف کر دیں۔چھوٹے پودے جب دو سے تین ہفتوں کے ہو جائیں تو ان کو کھیت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
کھیت میں منتقلی (ٹرانسپلانٹنگ)
ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ گہرا گڑھا کھودیں اور اس کو دوبارہ مٹی اور سبز کھاد کے ساتھ بھر دیں۔ان گڑھوں کو ایک دن پودا منتقل کرنے سے پہلے پانی لگا دیں۔دوپہر کے بعد تقریباً عصر کے وقت پودے کو منتقل کر یں تاکہ پودا گرمی سے فی الوقت بچ جا ئے۔پودے کی بنیاد کو مٹی سے بھر دیں۔کچھ دنوں کے لیے صرف ہلکا پانی دیں۔
استفادہ : متعدد کتب اور ویب سائٹس